دینِ اسلام کے سب سے بڑے دشمن یہودی دین کی عمارت کو کمزور کرنے کی خاطر خود يا کسی بھی روپ میں معاشرے میں آ سکتے ہیں۔
جس کو آج کا طبقہ جو جدت کے نام پر مغرب کا پیروکار ہو چکا ہے اس بات کو مذاق میں لیتا ہے جب کہ یہودی لابی کا وجود ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔یہ لوگوں کو چند پیسوں کے عوض خرید کر اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ماضی میں یہ ہو چکا ہے۔ اور اب بھی جاری و ساری ہے۔
جب کہ وطنِ عزیز میں کچھ اور طرح کے مباحثے جاری ہیں۔
علماء کرام، اہلِ قلم اِس سلسلے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
لایعنی تحریروں اور شاعری سے بہتر ہے کہ فتووں کی پرواہ کیے بغیر اپنے دین کے لیے لکھا جائے۔
فیس بُک پہ بلا مقصد کی پوسٹس اور اُن کے اوپر ہزاروں کومنٹس لا حاصل مشق ہے اور بہت سے ذی شعور لوگ اس کا حصہ بنتے ہیں جن کی بحث میں شامل ہونا بھی اُسی عمل کا حصہ بننا ہے۔
آج حالت یہ ہے کہ ہر موضوع زیرِ بحث آتا ہے لیکن دین پہ اختلافات کی انتہاء۔
بہت کم علماء کرام ہیں جو آفاقی اور اجتماعی بات کرتے ہیں۔
جب اپنے مسلکی مسائل کے خوف سے دین پہ بات نہیں ہوگی تو زیادہ خطرناک صورتِ حال ہوگی۔
بصورتِ دیگر ایسے لوگ سامنے آئیں گے جو نعوذ باللہ مذہب کو ہی اپنے اوپر بوجھ سمجھتے ہیں اور کٹی پتنگ کی مانند ہے۔
اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے۔آمین
تحریر محمد یاسر معراج